رضا اللہ حیدر ۔۔۔ شاید حریمِ قدس کی کوئے جناں کی ہے

شاید حریمِ قدس کی کوئے جناں کی ہے
چڑھتی ہے آسمان کو مٹی کہاں کی ہے

ٹھنڈی ہوائیں درد کی سوغات لے اُڑیں
تاثیر اس قدر مرے اشکِ رواں کی ہے

اس کی محبتوں میں ہوئے معرکے عجب
گویا کہانی جنگ کی تیر و سناں کی ہے

میں حلقۂ غبارِ سفر کا مکیں ہوا
رہزن کو کیوں تلاش مرے آشیاں کی ہے

پھرتے ہیں لے کے آنکھ میں خوابوں کی کھیتیاں
حالت عجیب شہر میں پیر و جواں کی ہے

آخر رضا ہوا ہی کرے گی ہوا اُسے
احباب کو جو فکر لحد کے نشاں کی ہے

Related posts

Leave a Comment